سوچنے کا یہ انداز اور طریقہ مریضانہ ہے

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

حضرت شفیق بلخی رح مشہور بزرگوں میں ہیں،ایک دفعہ تجارت کی غرض سے سفر پر نکلے ،سفر پر روانگی سے قبل انہوں نے اپنے دوست ابراہیم بن ادہم سے الوداعی ملاقات کی اور ان کی دعاؤں اور نیک تمناؤں کے ساتھ وطن سے روانہ ہوئے ،حضرت شفیق بلخی اپنی اس روانگی کے کچھ ہی دنوں بعد وطن واپس آگئے ،ایک دن وہ مسجد میں نماز ادا کرنے آئے تو ابراہیم بن ادہم نے انہیں دیکھ لیا،قریب بلایا اور دریافت فرمایا ،بھائی ! اس قدر جلدی سفر سے کیسے واپس آگئے ؟ حضرت شفیق بلخی نے جواب دیا ،میں اپنے اس تجارتی سفر کے دوران جب ایک بیاباں سے گزر رہا تھا، تو وہاں ایک زخمی پرندہ دیکھا جس کے بازو ٹوٹ گئے تھے اور وہ اڑنے سے بالکل مجبور تھا ،میں نے دیکھا کہ ایک تندرست و بال و پر والا پرندہ اپنی چونچ میں ایک ٹکڑا لایا اورایک مجبور پرندہ کی چونچ میں ڈال دیا ،انہوں نے اپنی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا،یہ دیکھ کر میرے دل میں یہ خیال آیا کہ جس ذات نے اس زخمی پرندے کو تندرست پرندے کے ذریعہ زندگی گزارنے کا سامان دیا وہ مجھے بھی روزی پہنچانے پر قادر ہے چاہے، میں کہیں بھی رہوں ،یہ سوچ کر میں نے اسباب و ذرائع سے منھ موڑ لیا اور اس سے کنارہ کشی اختیار کر لیا اور اللہ تعالی کے ذکر و عبادت اور تسبح و تحلیل میں مشغول ہوگیا ۔
:حضرت ابراہیم رح حضرت شفیق بلخی کی بات کو خاموشی سے سنتے رہے اور پھر ایک بڑی حکیمانہ اور عارفانہ بات ارشاد فرمایا
اےشفیق! تم نے اپنے لئے مجبور و بے بس پرندے کو معیار بنایا مگر تندرست و توانا پرندے کو معیار نہیں بنایا ،، سوچنے کا یہ انداز مریضانہ ہے،،۔ تمہیں صحت مند بنیادوں پر غور و فکر کرتے ہوئے تندرست پرندے کو اپنے لئے مثال بنانا چاہئے تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شفیق! تندرست پرندے کو اپنے لئے نمونہ کیوں نہیں بناتے اور اس کی خدمت گزاری سے سبق اور درس و نصیحت کیوں نہیں لیتے ،جس طرح اس نے ایک زخمی اور مجبور پرندے کو غذا پہنچائی اور اس کی مصیبت میں کام آیا، اس طرح تم بھی معذوروں، بے کسوں اور مجبوروں کی حاجت روائی کرتے اور ان کے کام آتے اور اپنی اس خدمت خلق کے ذریعہ پرندے سے بڑھ کر فضل و کمالات اور شرف و منزلت حاصل کرتے۔
حضرت شفیق بلخی رح حضرت ابراہیم بن ادہم رح کی یہ پر اثر، پرمغز ،انمول، قیمتی ، گراں قدر اور بیش بہا اور حکمت و دانائی سے پر نصیحت سن کر فرط مسرت سے جھوم اٹھے آگے بڑے اور حضرت ابراہیم بن ادہم رح کے ہاتھ چوم لئے اور نہایت ہی پرکیف انداز میں کہا:
ابو اسحاق! (حضرت ابراہیم بن ادہم رح کی کنیت) واقعی آپ میرے استاد ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ عبادت و ریاضت کے ساتھ اپنے کاروبار اور تجارتی مشغولیات میں لگ گئے اور خالق کی عبادت کے ساتھ مخلوق کی خدمت کو اپنا وطیفئہ حیات بنا لیا ۔ منفی طرز فکر سے ہٹ کر مثبت اور تعمیری فکر کو اپنا لیا ۔
قارئین باتمکین!
یہ واقعہ صرف شفیق بلخی کے ساتھ خاص نہیں ہے، ان کو تو بر وقت اس مریضانہ ذھنیت اور منفی طرز فکر سے ان کے دوست اور مربی نے نکال دیا ۔ لیکن آج بھی بہت سے لوگ اس منفی طرز فکر اور مریضانہ ذھنیت کے شکار ہیں اور جو توکل اور ذات خدا پر بھروسہ و اعتماد کا غلط اور غیر شرعی مفہوم نکالتے ہیں اور توکل و اعتماد کی تشریح قرآن و حدیث اور جمہور و سلف کی تشریح و تعبیر سے ہٹ کر کرتے ہیں اور اپنے کو مقربین اور متوکلین کی فہرست میں شمار کرتے ہیں، جس، توکل کا مفہوم پیارے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا وہ اس ہٹ کر اس کا مفہوم لوگوں کو سمجھاتے ہیں اور غضب بالائے غضب کہ وہ اپنے کو دین کا ٹھیکہ دار اور صحیح اور ذمہ دار داعی و مبلغ سمجھتے ہیں ۔
ضرورت ہے کہ اس مریضانہ ذھنیت کے لوگوں کا صحیح سے علاج کیا جائے ان کو توکل اور اسباب دنیا کی حقیقت کو شرعی نقطئہ نظر سے سمجھایا جائے اور ان کی اس مریضانہ ذھنیت کا صحیح علاج کیا جائے ۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق مرحمت فرمائے آمین( ناشر مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی دگھی، گڈاجھارکھنڈ)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں