اکثریت مادی ہوس میں غوطہ زن ہے

اکثریت مادی ہوس میں غوطہ زن ہے

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

آج کا یہ دور مادی ہوس کا دور ہے ۔ اکثریت زن، زر اور زمین کی ہوس میں مبتلا اور مادی ہوس میں غوطہ زن ہیں ۔ روحانیت اور مقصدیت کا فقدان ہے ، مال و منال ، حرص و ہوس اور دنیا کی ریس میں لوگ اندھے ہوتے جارہے ہیں ۔ سورج کی شعاعوں کو گرفتار کر رہے ہیں، چاند پر کمندیں ڈال رہے ہیں لیکن زندگی کی شب تاریک سحر کرنے میں ناکام و نامراد ہیں ۔ اقبال مرحوم نے سچ کہا تھا کہ

جس نے سورج کی شعاعوں کو کرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
ڈھونڈ والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا کا سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلئہ نفع و ضرر کر نہ سکا

آج کی جدید دنیا جس کا آغاز سولہویں صدی کے صنعتی انقلاب اور سترہویں صدی میں رونما ہونے والے جدید نطریات سے ہوتا ہے ،جس میں تین طرح کے افکار و نظریات کو خاص اہمیت حاصل ہے ڈارون کا نظریہ ارتقاء، فرائڈ کا نظریہ جنس اور کارل مارکس کا نظرئہ معاش و اقتصادیات ۔ ان تینوں باطل اور گمراہ کن نظریات و خیالات کو لوگ اپنا رہے ہیں اور جس کی وجہ سے وہ روحانیت اور مقصدیت سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔ ان انقلابات و نظریات نے انسان کی قلب ماہیت کر دی ہے ۔ آج سارا زور حیوانی اور جسمانی ضروریات پر ہی صرف کیا جارہا ہے اور روحانی و معنوی ضرورت کو بالائے طاق رکھا جا رہا ہے ۔ (مستفاد مقدمہ از کتاب، جو کچھ تم بننا چاہو مقدمہ نگار مولانا علاءالدین صاحب ندوی)
یہ حقیقت ہے کہ آج اگر لاکھوں لوگوں سے ان کے مقصد زندگی اور مسائل حیات کے بارے میں گفتگو کی جائے اور اس حوالے سے ان سے سوال کیا جائے تو شاید درجن بھر آدمی بھی ایسے نہیں ملیں گے جو انسانیت کے روحانی بحران کا رونا روتے ملیں، جو فکر آخرت میں محو ہوں ، سب کے سب دنیا اور اسباب دنیا کے بارے میں متفکر اور حیران اور مادی ہوس میں مبتلا نظر آئیں گے ۔
افسوس کہ وہ منتخب اور افضل امت جس کی نسبت آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، جو اس کے لئے فخر و ناز کی بات ہے ، جس کی افضلیت کا ذکر قرآن و حدیث میں ہے (جنکو الکیس من دان نفسہ و عمل لما بعد الموت ( عقلمند وہ جو اپنی زندگی کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کی زندگی کی تیاری کرے) کا درس ان کے آخری نبی نے دیا) وہ بھی زندگی کے میدان میں اور دنیا کی ریس اور مادی ہوس میں عام لوگوں اور دیگر امتوں کی طرح عمل کرنے میں مشغول ہے ،وہ امت بھی ہوا و ہوس اور دنیا کی دوڑ میں غیروں کی نقالی نظر کرتے نظر آرہی ہے ۔ وہ امت جو دنیا کے لئے نمک تھی وہ بھی اپنی نمکینی کھوتی نظر آرہی ہے ۔ جب کے اسے چاہیے تو یہ تھا کہ دوسروں کو آئینہ دکھاتی ان کے لئے اچھی تصویر پیش کرتی ،لوگوں کو ان کے مقصد حیات سے اور مسائل زیست سے واقف کراتی اور یہ سمجھاتی کہ اصل بحران مادیت کا بحران نہیں روحانیت کا بحران ہے ۔ مادیت کا مسلئہ وقتی ہے اور روحانیت کا معاملہ دائمی ہے ۔
ضرورت ہے کہ ہم اپنے مقام و مرتبہ اور اپنی ذمہ داری کو سمجھیں مادی ترقی کو زندگی کا حاصل نہ سمجھ کر دینی اور روحانی ترقی کو اپنی زندگی کا مشن بنائیں ، دوسروں کے سامنے کاسہ گدائی لئے نہ پھریں، بلکہ اپنے اندر شاہین اور شہباز صفت خوبیاں پیدا کریں ۔ اور دنیا کو یہ سمجھائیں کہ تمہارا سکون مادیت کے کھوج میں نہیں بلکہ روحانیت کی تلاش میں ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں