استاد کا رتبہ بڑا ہے یا والد کا؟

مفتی تقی عثمانی صاحب

ایک مرتبہ شیخ عبدالاحد ازہری جو مصر کے بہت اچھے فقیہ ہیں، میرے مہمان ہوئے. آپ نے حاضرین کے سامنے بہت ہی عمدہ انداز میں تلاوت کی۔ پھر گفتگو کا دور شروع ہوا۔ بات نکلی۔ کہ قرآن نازل ہوا عرب میں پڑھا گیا مصر میں اور سمجھا گیا ہند میں۔ اس پر انہوں نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا کہ..

ایک مرتبہ میں مسجد نبوی میں حاضر تھا۔ کچھ محبت رکھنے والے علماء نے مجھے مسند پر بٹھا دیا۔ اور کہا ہمیں کچھ نصیحت کریں۔ بعد نصیحت کے سوال جواب کا دور شروع ہوا۔ کسی نے پوچھا استاذ کا رتبہ بڑا یا والدین کا؟؟
میں نے کہا کہ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ استاذ کا درجہ بڑا ہوتا ہے۔ کیوں کہ والدین بچے کو نیچے(دنيا میں) لانے کو محنت کرتے ہیں اور استاذ بچے کو نیچے( دنیا) سے اوپر لے جانے کے لئے محنت کرتا ہے۔۔۔۔۔۔اس جواب پر ایک ادھیڑ عمر کے آدمی نے کہا کہ مجھے آپ کا جواب سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے کہا آپ کچھ سمجھا دیں۔ اس نے کہا۔ کہ صحابہ کے دور سے یہ ترتیب چلی آ رہی ہے۔(غالباً حضرت معاذ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک گفتگو کی طرف اشارہ فرمایا) کہ پہلے کتاب اللہ پھر سنت رسول اللہ، پھر عمل صحابہ پھر اخیر میں قیاس ہے۔اور آپ نے پہلے ہی قیاس کو اٹھایا۔
حالانکہ والدین کا رتبہ منصوص علیہ ہے۔ اور آپ نے جو دلیل پیش کی وہ قیاس ہے۔ جب نص کسی چیز کی فضیلت میں وارد ہو جائے وہ ہر حال میں افضل ہی رہتی ہے۔تاآنکہ کوئی دوسری نص اس کے خلاف وارد ہو جائے ۔

میں نے اپنا سر پکڑ لیا۔۔۔۔ کہ واقعی اتنی زبردست چوک مجھ سے کیسے ہوگئی جب کہ اصول میں یہ بات ہے کہ کسی چیز کی فضیلت ،یا کسی چیز کے ثواب و عقاب کو ثابت کرنے کے لئے نص قطعی الثبوت چاہیے ۔ یا ایسا مضبوط باسند المتصل قول نبی چاہیے جو اس فضیلت یا ثواب و عقاب کے معاملہ میں صریح ہو،
میں نے کہا واقعی میں غلطی پر تھا۔ کچھ اور فرمائیں۔ کہا کہ ایک باندی تھی۔ ابو لہب کی آزاد کردہ جن کا نام تھا “ثویبہ” جنہوں نے چند روز آپ علیہ السلام کو اپنا دودھ پلایا تھا۔ ایک مرتبہ تشریف لائیں۔ تو آپ نے اپنی دستار مبارک ان کے راستہ میں بچھا دی۔ یہ درجہ دیا اس ذات کو جس نے چند روز دودھ پلایا۔ تو جنم دینے والی کا کیا حق ہوگا؟ اور دوسری طرف حضرت جبرئیل جو من وجہٍ آپ کے استاذ تھے۔ ان کی آمد پر اس قسم کی تکریم ثابت نہیں۔

میں نے کہا آپ کے جواب سے اطمینان ہوا۔ کلام الہی اور عمل نبی کے بعد کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ پھر وہ اٹھ کر چل دیئے ۔ میں نے کہا شاید کوئی فقیہ ہیں۔ اہلِ مجلس نے کہا کہ یہ ہندوستان کے ادارہ دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث مفتی سعید احمد پالنپوری ہیں۔ ( رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ )

کہاں سے لائیں تیرا انداز افہام و فراست

؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں