آزادی کی حقیقت اور جنگ آزادی کی تاریخ

محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

   ماضی قریب کے مشہور اور جید عالم دین ،متعدد علمی و تحقیقی کتابوں کے مصنف و مترجم اور بے مثال خطیب علامہ انور شاہ کشمیری رح کے صاحبزادے حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری رح نے ۲۶/ جنوری ۱۹۷۵ء میں جنگ آزادی میں علماء اور مسلمانوں کا مثالی کردار اس موضوع پر خطاب کرتے ہوئے اسلام کے نظریئہ آزادی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ :

دوستو! میرا دعوی ہے کہ اسلام حریت پسندی اور آزادی کا سب سے بڑا داعی اور آزادی کا سب سے بڑا علمبردار ہے ۔ لیکن اس وضاحت کے ساتھ کہ اس آزادی اور حریت سے اباحت پسندی کی وہ غلاظت مراد نہیں ہے، جس کے تعفن سے انسانیت کے دل و دماغ پھٹے جاتے ہیں، وہ اباحت پسندی نہیں جو انسان کو حیوان ،متمدن کو جانور بنانے کی ٹھیکہ دار ہو،جس میں حلال و حرام کی تمیز نہ ہو ،جائز اور ناجائز کے فروق کو ختم کر دئے جائیں، نہیں نہیں ۔۔ اسلام جیسا صحیح، سچا ،واقعاتی خدا کا پسندیدہ مذہب اس طوفان بدتمیزی کا خیمہ بردار کیوں بننے لگا بلکہ آزادی سے مراد وہ آزادی ہے ،جس میں تمام بندے صرف ایک خدا کے عباد ہوں، اور بس ! رسول کی رسالت، بادشاہوں کی فرمانروائی، امیروں کی امارت ،ائمہ کی امامت ،اس حیثیت سے تسلیم نہ ہوں کہ وہ ہمارے خدا ہیں اور ہم ان کے بندے ،بلکہ خدا ایک ،ہم سب بندے ،سب کے مناسب حقوق، اور سب کو اپنے واقعی چوکھٹوں میں تسلیم کرنے کا جائز و متوازن سلیقہ ۔ یہ ہے وہ حریت پسندی جس کی دعوت اسلام دیتا ہے ۔ جس کا وہ علمبردار ہے ۔ جس کی جانب وہ بلاتا ہے ۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ اسلام سے مراد وہ حقیقت ثابتہ و سچا دین ہے، جس کے داعی آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک خدا کا ہر پیغمبر ،ہر نبی اور ہر رسول رہا ہے ۔ اس وضاحت کی روشنی میں تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے کارنامے اور شاہکار خلق خدا کو غیر اللہ کی غلامی سے نجات دلا کر ایک سچے و برحق خدا سے وابستہ کرنے کی مسلسل جدو جہد نظر آئے گی ۔ جس کی صاف تصویر اور روشن مضمون حضرت موسی علیہ السلام کی وہ مجاہدانہ کوشیش ہیں جو بنو اسرائیل کے استبداد اور اس کے ظالمانہ تسلط سے آزاد کرانا ہے ۔ وارسل معنا بنی اسرائیل ۔۔ ۔
حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری رح کی اس دلکش و دلپزیر اور نکتہ آفرین تقریری اقتباس سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا، کہ اسلام کا تصور آزادی کیا ہے ؟ یہ کن حدود و قیود کا پابند ہے ؟ اس کے الہی قانون و حدود کیا ہیں ؟ کون سی آزادی اسلام میں مطلوب ہے اور کس آزادی سے اسلام بیزار اور بری ہے ؟
اسلام غلامی کو پسند نہیں کرتا ، غلام سے غلامی کے بندھن اور گروہ کو اسلام نے اس طرح کھولا اور آزادی کی ایسی ترغیب اپنے ماننے والے کو دی اور اس کے لئے فدیہ اور کفارہ کی ایسی شکلیں دیں کہ آج غلام اور غلامی دنیا سے ناپید ہوگئ، آپ کو ڈھونڈنے سے اب کوئی غلام نہیں ملے گا ۔ یہ انسانیت پر اسلام کا بہت بڑا احسان ہے ورنہ دنیا میں آبادی کا زیادہ حصہ ایک زمانے تک غلامی اور بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھا اور عرب کلچر میں عورت اور غلام سے زیادہ کوئی طبقہ ذلیل اور حقیر نہیں تھا ،ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک ہوتا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے پوری زندگی ان دونوں طبقہ کی زبردست حمایت و کفالت کی اور ان کو ان کے حقوق دلائے ۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری کلمات میں بھی سب سے زیادہ دھیان اور توجہ اقامت نماز کے بعد ان دو طبقوں کی خبر گیری اور نگہداشت پر تھی، آپ نے فرمایا تھا الصلوۃ و ما ملکت ایمانکم
دیکھو ! میرے جانے کے بعد نماز کی سب سے زیادہ پابندی کرنا اور ماتحتوں کا خاص خیال رکھنا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم غلاموں کے خیال رکھنے اور ان کے ساتھ رعایت کرنے کی بہت زیادہ تاکید فرماتے تھے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ آپ اپنے کسی غلام کو اس کی کسی غلط پر ڈانٹ رہے تھے تادیب فرما رہے تھے ۔ تنبیہ کر رہے تھے۔
تو عقب سے ایک گرجدار آواز ابو بکر صدیق رضی اللہ کے کانوں میں پہنچی کہ :-
۰۰ ابو بکر ! تم نے انسانوں کو کب سے اپنا غلام بنا لیا حالانکہ وہ ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوئے تھے۰۰ ۔
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان تفصیلات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایمان و یقین عمل صالح اور اولاد و والدین کی نعمت کے بعد اگر کوئی نعمت سب سے زیادہ قابل ذکر اور لائق تعریف ہے، تو وہ آزادی کی نعمت ہے ۔ شاعر نے اسی لئے تو کہا ہے :
ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
تو ہے خوف ذلت کے حلوہ سے بہتر
اور اس کے مقابلے میں غلامی، سب سے زیادہ ذلت اور رسوائی کی چیز ہے،غلامی جرم کا شاخسانہ ہے ،آزادی سے محرومی بہت بڑا نقص اور کمی ہے،آزادی کے بغیر انسان کی حیثیت دوسرے کی نظر میں کٹھ پتلی کی ہے،بلکہ اس سے آگے یہ کہا جائے کہ غلام کی موت و زندگی سب یکساں ہے ،اور آقا اور مالک کی ماتحتی میں غلام کی حیثیت گویا مردے کے ہاتھ میں زندہ ۔
غلام کو سماج اور معاشرہ میں کوئی مقام اور درجہ حاصل نہیں ہوتا اس کی اپنی کوئی ملکیت نہیں ہوتی،وہ کسی کا مالک،سرپرست اور ولی نہیں ہوسکتا ،گواہی میں اس کا کوئی اعتبار نہیں، وہ خرید و فروخت بغیر آقا کی مرضی اور اجازت کے نہیں کرسکتا ، اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلسل غلامی سے انسان کے فکر ونظر خیال و سوچ میں سطحیت آجاتی ہے ، پرواز فکروخیال کی ساری صلاحیتیں کھو بیٹھتا ہے ۔ اسی لئے تو تو حکیم دانا اقبال مرحوم نے کہا تھا :
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
ہمارا ملک ہندستان بھی آج سے اکہتر سال پہلے ناپاک انگریزوں کے قبضہ میں تھا ۔ اس سے پہلے یہ ملک اسلامی حکومت کے زیر نگیں رہا لیکن ہمارے حکمرانوں کی نااہلی،آپسی خانہ جنگی اور عیش کوشی اور عیاشی کی وجہ سے اس وسیع ترین اسلامی سلطنت سے ہم مسلمانوں کو محروم ہونا پڑا جس کی کہانی بڑی دلخراش ہے ۔ الغرض ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے اس ملک میں ایک دور اسلامی سلطنتوں کے قیام کا ہے اور دوسرا تاریک ترین عہد برطانوی اختیار کا ہے ۔ یہاں برطانوی حکومت کیسے قائم ہوگئی اسلامی حکومت کو شکست و ریخت اور ناکامی کا سامنا کیوں اور کیسے کرنا پڑا ، اپنوں نے کیسے خنجر گھونپے،اور غیروں کی کیا عیاری رہی اس کی ایک طویل داستاں ہے ۔ خلاصہ یہ کہ جب برطانوی ڈپلومیسی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی دسیسہ کاریوں کے نتیجہ میں مغل سلطنت کا خاتمہ ہوگیا تو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مسلمان اور علماء اس حکومت کی بحالی اور اسلامی اقتدار کے لئے سینہ سپر ہوگئے ۔ خود غدر کا ہنگامہ جو در حقیقت استخلاص وطن کی ایک پاکیزہ کوشش تھی، اور جسے مکار انگریز نے عیاری سے .. غدر .. کا نام دیا ۔ اس میں علماء کی جماعتیں اطراف و جوانب سے آکر دہلی میں انگریز فوجوں سے دست بدست لڑرہی تھیں ۔
اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ آزادی کی لڑائی میں سب سے زیادہ قربانی مسلمانوں کی رہی ،سب سے اہم اور بے مثال کارنامہ مسلمانوں نے انجام دیا اور سب سے آگے آگے علماء کرام رہے ۔اگر آزادی ہند میں مسلمان اور خصوصا علماء کرام حصہ نہ لیتے تو ہندستان کی آزادی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوتا، تحریک آزادی نہ چلتی، تحریک بالا کوٹ کا وجود نہ ہوتا ،تحریک ریشمی رومال کی بنیاد نہ پڑتی،تحریک خلافت کا غلغلہ نہ ہوتا،ہندستان چھوڑو تحریک کا زور و شور نہ ہوتا ،اگر مسلمانوں نے اپنے پاکیزہ لہو سے شجر آزادی کی آبیاری نہ کی ہوتی اور اپنے خون جگر سے عروس آزادی کی حنا بندی نہ کی ہوتی تو کل پندرہ اگست کو ہم آزادی کا بہترویں جشن آزادی جو منانے جارہے ہیں ۔ نہیں منا پاتے ۔
ہم یہ نہیں کہتے اور یہ کہنے کا ہمیں بالکل جواز نہیں ہے کہ ہمارا یہ ملک صرف ہماری ہی کوششوں سے آزاد ہوا ہے ۔ ایسا کہنا تاریخ کو منھ چڑھانا ہوگا ۔ ہاں یہ سچ ہے کہ آزادی کا صور مسلمانوں نے پھونکا ،انگریز کے خلاف جہاد کا فتوی علماء نے دیا ،آزادی کی لڑائی کی شروعات مسلمانوں نے کی اور جب اس چنگاری نے شعلہ کی شکل اختیار کرلی تو برادران وطن بھی ہمارے ساتھ ہوگئے اور پھر انھوں نے بھی شانہ بشانہ ہمارا ساتھ دیا اور ہر طرح سے اس لڑائی میں کود گئے ۔ ہم کہ سکتے ہیں کہ:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
راہ رو آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
اور یہ کہ
شورش عندلیب نے روح چمن میں پھونک دی
ورنہ یہاں کلی کلی مست تھی خواب ناز میں
علماء کرام نے آزادی کی لڑائی میں سب سے زیادہ قربانی دی اور بے مثال کارنامہ انجام دیا ۔ اس کی شہادت ایک انگریز مورخ مسٹر ایڈورڈ ٹامسن سے سنئے ۔:
وہ لکھتا ہے : ’’کہ 1864ء سے لیکر 1867ء تک انگریز نے علماء کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ تین سال ہندستان کی تاریخ کے بڑے المناک سال ہیں ،ان تین سالوں میں انگریزوں نے چودہ ہزار علماء کو تختۂ دار پر لٹکایا ‘‘آگے لکھتا ہے کہ ’’ دلی کے چاندنی چوک سے لے کر خیبر تک کوئی ایسا درخت نہ تھا جس پر علماء کی گردنیں نہ لٹکی ہوں‘‘
یہ تو اس سلسلہ کی صرف ایک کڑی دکھائی گئی ورنہ تو ہندستان کے لاکھوں علماء ہیں آزادی کے لئے ان کے غیر فانی کارنامے ہیں۔ جنکی قربانیاں اور بلند حوصلگی جن کا عزم اور تڑپ تاریخ کے صفحات میں درج ہے۔
واسرائے ہند لارڈ ڈفرن کے زمانہ میں کانگریس کا قیام عمل میں آیا ۔ جس کی ابتداء برطانوی اقتدار کے لئے نیک خواہشات کا اظہار اور دبے بھنچے الفاط میں اپنے حقوق کی دریوزہ گری تھی ۔ مطالبۂ حقوق کا تو یہ تصور نہیں کرسکتے تھے ۔ سب سے پہلے جس شخص نے آزادئ کامل کا ریزولیشن پیش کیا وہ سید فضل الحسن حسرت موہانی رح تھے ۔ اور کس ماحول میں جبکہ کانگریس کے شیسن میں بڑے بڑے مہاتما حسرت موہانی کے اس اقدام پر کانپ پڑے تھے ۔ سالہاسال تک کانگریس مکمل آزادی کے مطالبے کے قریب نہیں آئی ۔ یہ مسلمانوں ہی کا کارنامہ تھا کہ انھوں نے اس جماعت کو آزادی کی لڑائی میں جرأت آزما بنا دیا ۔ (مستفاد تقریر از مولانا کشمیری رح)
خیر طویل جد و جہد اور قربانی کے بعد آزادی کی یہ لڑائی تو ہندستان کے لوگ اور باشندے جیت گئے اور آزادی کا آفتاب غلامی کے تیرہ و تار فضا کو چھانٹتا ہوا عقب سے طلوع تو ہوگیا ۔ لیکن ہندستان اس طرز کی آزادی حاصل کرنے سے محروم رہا جو ہمارے علماء کا منصوبہ اور مقصد تھا ۔ اور بقول گھر کے ایک گواہ کے:
’’آزادی آئی مگر خونچکاں بن کر۔ بجائے بہار بدوش ہونے کے خزاں بد امن ۔ جس کے نتیجہ میں وہ تباہی آئی اور آرہی ہے اور اس بربادی سے سابقہ ہورہا ہے۔ جس کی مثال بھی تاریخ میں نہیں ملتی ۔( ناشر مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی،دگھی ،گڈا،جھارکھنڈ)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں