اقلیت کو اکثریت کے مقابلے میں زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے

مد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

  کچھ دنوں پہلے کی بات ہے،اخبارات و رسائل میں بھی اس کی تفصیل آئی تھی کہ ایک ریٹائرڈ مسلم فوجی افسر سے ایک مسلم صحافی (اخبار نویس) کی ملاقات ہوئی، وہ صحافی اصلا ان سے انٹرویو لینے گئے تھے ۔ دوران گفتگو یہ مسئلہ بھی چھڑ گیا کہ آخر فوج میں مسلمان اتنے کم کیوں ہیں،ان کی شرح فیصد اس شعبے میں اتنی کم کیوں ہے ؟ فوجی افسر نے جو جواب دیا ،اور اپنے تجربے کی روشنی میں جو تفصیلات اور وضاحت انہوں نے پیش کی، اس میں مسلم نوجوانوں کے لئے ایک لمحئہ فکریہ ہے ،اور مسلم نوجوانوں کے لئے بہت بڑا سبق ہے ۔ فوجی افسر نے اس صحافی کے اس سوال کے جواب میں کہا :

،،اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ مسلمان نوجوان اس کی طرف راغب ہی نہیں ہوتے یعنی ڈیفنس اور دفاع کی ملازمت پر وہ توجہ کم دیتے ہیں ۔ توجہ نہ دینے کی وجہ اور سبب یہ کہ وہ پہلے ہی سے سوچ لیتے ہیں، کہ ان کے ساتھ تعصب برتا جائے گا ، میں سمجھتا ہوں کہ فوج میں اس طرح کا کوئی بھید بھاؤ اور تعصب نہیں،، یہ سن کر اس مسلم صحافی نے کہا: بالائی سطح پر تعصب نہیں برتا جاتا لیکن نچلی سطح پر تو ایسا ہوتا ہے اور یہاں اقلیت اور اکثریت کی بنیاد پر اس شعبہ میں ترجیح دی جاتی ہے اور تعصب برتا جاتا ہے ، فوجی افسر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، اگر ہوتا بھی ہے تو معمولی ،ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اگر ایک پوسٹ کے لئے ایک غیر مسلم اور ایک مسلم بالکل برابر کی قابلیت کے ہیں تو عام طور پر غیر مسلم کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا ، مسلمانوں کو فوج اور ڈیفنس ہی شعبے میں کیا ، زندگی کے ہر میدان اور شعبے میں ان کو دوسروں سے یعنی ملک کے اکثریتی طبقہ کے مقابلے میں زیادہ قابل بنا کر پیش کرنا ہوگا، تب ہی ان کو فوج میں اور دوسری تمام سرکاری نوکریوں میں لیا جائے گا اور قابلیت ہی کی بنیاد پر ان کو دوسرے شعبوں میں اہمیت مل سکے گی ۔ پوری دنیا میں اقلیت کو اکثریت کے مقابلے میں زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، تب ہی اقلیتی فرقے اور طبقے کے لوگ آگے بڑھ پاتے ہیں میں خود اتنے بڑھے عہدے تک صرف اس لئے پہنچ پایا کہ میں نے ہمیشہ دوسرے افسران کے مقابلے میں زیادہ محنت کی،فرض شناسی،وفاداری اور ایمان داری سے کام لیا ،ڈیوٹی کا بہت پابند رہا ۔ نتیجہ یہ تھا کہ کسی کو میرے ساتھ تعصب برتنے اور میرے ساتھ بھید بھاو کرنے کی ہمت نہیں ہوئی،،
اس فوجی افسر کی اس بات اور تجربہ سے ہم مسلمانوں کو اور خاص طور پر مسلم نوجوانوں کو سبق لینا چاہیے اور اس کی روشنی میں اس ملک میں ہمیں اپنی ترقی اور روشن مستقبل کا خواب دیکھنا چاہیے نہ کہ صرف گلہ اور شکوہ و شکایت کرکے اپنے کو ناکامی اور محرومی کے خانے میں ڈال دینا چاہیے ۔
آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا اور اس کو ماننا ہوگا کہ دنیا کی کسی بھی اقلیت کو شروع شروع میں دبایا گیا، ان کو کچلا گیا، ان کے ساتھ تعصب برتا گیا، ملازمت میں ان کی شرح فیصد کو نا کے برابر رکھا گیا ۔ اس کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن جب اس اقلیتی فرقے کے لوگوں کو یہ احساس ہوا اور ان کا یہ شعور جاگا کہ وہ صرف اور صرف اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں سے اپنے لئے ایک باعزت مقام حاصل کرسکتے ہیں تو انہوں نے دوسروں سے زیادہ محنت کی،ان سے زیادہ اپنے کو تپایا اور کھپایا ،مثال میں یورپ میں یہودیوں اور ہندوستان میں سکھوں پارسیوں اور جینیوں کو پیش کیا جاسکتا ہے ۔
ملک کو تقسیم ہوئے تقریبا پچہتر سال ہوگئے، ہندوستان کے مسلمان اگر چہ (وہ) اس ملک میں کثیر تعداد میں ہیں ،ہندوستان میں ان حیثیت دوسری بڑی اکثریت کی ہے، مگر مسلمان پھر بھی اکثریت اور جمہوریت کے مقابلہ میں اقلیت ہی میں ہیں ۔ اور کسی بھی ملک میں اقلیتی طبقہ محنت ،جد وجہد، لیاقت اور استعداد و صلاحیت ہی کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے ۔ اور اسی راہ سے وہ اپنی عزت ،کھوئ ہوئی طاقت اور وقار و رتبہ حاصل کرتا ہے ۔
ہم ہندوستانی مسلمان جیسے جیسے اس بات کو سمجھیں گے اور اپنے دین و ایمان شریعت و احکام اور معاشرت و معاملات کی حفاظت کرتے ہوئے ،اپنی ان صلاحیتوں کا استعمال شروع کریں گے ویسے ویسے ہماری ترقی کی راہیں اور عروج کے دروازے کھلتے جائیں گے اور اگر صرف گلہ و شکوہ کرتے رہیں گے،اور تعصب کا رونا روتے رہیں گے تو ہم زوال و پستی کے دلدل میں اور انحطاط و تنزلی کے بھنور میں پھنستے چلے جائیں گے کیونکہ اس ملک میں تعصب کی جڑ اتنی گہری ہے کہ اسے کسی قانون سے کاٹا نہیں جاسکتا ۔
مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم کو برادران وطن کی عصبیت اور شدت پسندی کا،اور مسلمانوں کے اپنے قائدین سے بے اعتمادی کا ہمیشہ شکوہ رہا بلکہ آزادی کے بعد تو اس چیز کا احساس کچھ زیادہ ہی ہو گیا تھا ۔
اس لئے اس ماحول میں مسلمان اپنے علم، صلاحیت، جد و جہد ، محنت و لیاقت، قربانی اور فرض شناسی ہی سے تعصب کے اس زہریلے اثر کو کاٹ سکتے ہیں اور زندگی کے ہر میدان میں غیروں پر اپنی برتری کا لوہا منوا سکتے ہیں اور اپنی فوقیت کا سکہ ان کے ذھن و دماغ میں بٹھا سکتے ہیں ۔ ہم مسلمانوں کو لہو و لعب ،کھیل و تماشہ ،ہسیر و تفریح ،آپسی اختلاف و انتشار اور جمود و تعطل کو چھوڑ کر زندگی کے ٹھوس اور بنیادی حقائق کی طرف پوری سرگرمی اور خلوص دل کے ساتھ متوجہ ہونا ہوگا ۔ اگر ہم اس حقیقت کو سمجھ لیں گے اور اس پر عمل شروع کر دیں گے تو یقینا ہم اس ملک میں اپنی حیثیت منوانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور عزت و وقار تو حاصل کر ہی لیں گے ہماری پسماندگی اور پچڑا پن بھی دور ہوجائے گا ،اور ساتھ ہی احساس کمتری،شکوہ و شکایت اور محرومی و ناکامی کی ذلت سے بچ جائیں گے ۔ خدا کرے ہمارے اندر یہ شعور پیدا ہوجائے اور آنی والی نسلوں کے لئے ہم نمونہ اور مثال بن جائیں ۔ (ناشر مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی،دگھی،گڈا ،جھارکھنڈ)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں